۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
رمضان المبارک کے اکیسویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! اس مہینے میں میرے لئے تیری خوشنودی کی جانب راہنما نشان قرار دے، اور شیطان کے لئے مجھ پر دسترس پانے کا راستہ قرار نہ دے، اور جنت کو میری منزل اور جائے آرام قرار دے، اے طلبگاروں کی حاجات بر لانے والے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیماہ رمضان کے اکیسویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔ ’’اَللهُمَّ اجْعَلْ لِي فِيہ إِلَی مَرْضَاتِكَ دَلِيلا وَلاتَجْعَلْ لِلشَّيطَانِ فِيہ عَلَی سَبِيلا وَاجْعَلِ الْجَنَّةَ لِي مَنْزِلا وَمَقِيلا يا قَاضِي حَوَائِجِ الطَّالِبِينَ‘‘
خدایا! اس مہینے میں میرے لئے تیری خوشنودی کی جانب راہنما نشان قرار دے، اور شیطان کے لئے مجھ پر دسترس پانے کا راستہ قرار نہ دے، اور جنت کو میری منزل اور جائے آرام قرار دے، اے طلبگاروں کی حاجات بر لانے والے۔
’’اَللهُمَّ اجْعَلْ لِي فِيہ إِلَی مَرْضَاتِكَ دَلِيلا ‘‘ خدایا! اس مہینے میں میرے لئے تیری خوشنودی کی جانب راہنما نشان قرار دے۔
دنیا و آخرت میں بشریت کی سعادت و کامیابی کا واحد ذریعہ خدا وندعالم کی رضا اور خوشنودی ہے کہ اگر کسی شخص سے سارے انسان راضی ہوں لیکن پروردگار راضی نہ ہو تو لوگوں کی خوشنودی اسے نہ دنیا میں کامیاب بنا سکتی اور نہ آخرت میں سرخرو کر سکتی ہے۔ جیسا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ’’لَا أَفْلَحَ قَوْمٌ اشْتَرَوْا مَرْضَاةَ الْمَخْلُوقِ بِسَخَطِ الْخَالِق‘‘وہ قوم کامیاب نہیں ہوئی جس نے مخلوق کی خوشنودی کے بدلے میں اللہ کے غیض و غضب کا سودا کیا۔ (بحارالانوار،ج 44 ، ص 383)
امام حسین علیہ السلام نے ہی فرمایا: ’’مَن طَلَبَ رِضَی الناسِ بِسَخَطَ اللهِ وَکَّلَهُ اللهُ إلی الناسِ‘‘ جو اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو خوش کرنے کا خواہاں ہوتا ہے تو اللہ اسے لوگوں کے ہی حوالے کر دیتا ہے۔ (امالی صدوقؒ، صفحہ ۲۰۱)
واقعاً مقام افسوس ہے کہ آ ج ہمارے دلوں میں اللہ کی رضایت اور خوشنودی کے بجائے لوگوں کی رضایت و خوشنودی کی تمنا ہے اور ہماری ساری کوشش یہی رہتی کہ کوئی ہم سے ناراض نہ ہو ۔ کوئی ہمارا مخالف نہ ہو اور لوگوں کی خوشنودی میں نہ حلال خدا کا خیال رہتا ہے اور نہ ہی حرام کا ۔ نمازیں قضا ہوتی ہیں تو ہو جائیں لیکن دنیا ہم سے ناراض نہ ہو، کسی مومن کی توہین ہوتی ہے تو ہو جائے لیکن لوگ ہم سے خوش رہیں۔ احکام شریعت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو اڑایا جائے لیکن ہم نہ بولیں گے کہ کہیں لوگ ہم سے ناراض نہ ہو جائیں ۔
انسان دنیا کی لالچ اور حوس کا اتنا اسیر ہو گیا کہ جو لوگ کھلم کھلا گناہ انجام دیتے ہیں ، جو دین کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن ان سے صرف اس لئے کچھ کہنے کی جرات نہیں کرتے کہ اگر وہ ناراض ہو گئے تو پھر کیا ہوگا۔ یہ دنیا طلب انسان پوری زندگی لوگوں کو خوش کرنے میں گذار دیتا ہے اور جب آخرت میں پہنچتا تو کیا پتہ چلتا ہے کہ جسکو راضی رکھنا سب سے زیادہ اہم اور لازم تھا وہی خدا ناراض ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے دعائے عرفہ میں اپنے ان فقرات ’’خدایا! جس نے تجھے پایا اس نے کیا کھویا۔ اور جس نے تجھے کھویا اس نے کیا پایا۔‘‘ کے ذریعہ رہتی دنیا تک بشریت کو یہ تعلیم دے دی کہ اگر خدا کو راضی کر لیا تو نہ دنیا میں کوئی نقصان ہو گا اور نہ ہی آخرت میں کوئی نقصان ہوگا۔ لیکن اگر خدا ناراض ہو گیا تو اگر پوری دنیا بھی راضی ہو جائے تب بھی نہ صرف آخرت میں خسارہ ہو گا بلکہ دنیا میں بھی خسارہ اور نقصان مقدر بن جائے گا۔
اللہ نے انسان کو عقل عطا کی تا کہ وہ اسکی عبادت کرے اور اسکو خوشنود کرے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مولا علی علیہ السلام سے فرمایا: ’’يَا عَلِيُّ الْعَقْلُ مَا اكْتُسِبَتْ بِهِ الْجَنَّةُ وَ طُلِبَ بِهِ رِضَا الرَّحْمَن‏‘‘ ائے علیؑ! عقل وہی ہے جس کے ذریعہ جنت حاصل کی جائے اور خداے رحمٰن کی خوشنودی حاصل کی جائے۔ (من لا یحضره الفقیه ج 4 ، ص 369)
اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ پروردگار کی خوشنودی کا حصول عقل کا تقاضا ہے اور اسکی ناراضگی مکاری تو ہو سکتی ہے لیکن عقل نہیں ہو سکتی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کو راضی و خوشنود کیسے کیا جائے ؟ قرآن و روایات معصومین علیہم السلام میں اس کے بہت سے اسباب بیان ہوئے ہیں جنمیں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ اطاعت پروردگار
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ’’هَیهاتَ لا یخْدَعُ اللَّهُ عَنْ جَنَّتِهِ، وَ لا تُنالُ مَرْضاتُهُ الّا بِطاعَتِهِ‘‘ ہیہات! خدا کو جنت کے سلسلہ میں دھوکہ نہیں دے سکتے اور اسکو راضی بھی نہیں کر سکتے سوائے اسکی اطاعت کے ذریعہ۔ (نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۹) یعنی اللہ صرف اطاعت سے ہی راضی ہوگا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ’’انَّ اللَّهَ تَبارَک وَ تَعالی اخْفی... رِضاهُ فی طَاعَتِهِ، فَلا تَسْتَصْغِرَنَّ شَیئاً مِنْ طاعَتِهِ فَرُبَّما وافَقَ رِضاهُ وَ انْتَ لا تَعْلَمُ‘‘ بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی رضا اور خوشنودی کو اپنی اطاعت میں پوشیدہ رکھا ہے۔ لہذا اطاعت میں کسی بھی عمل کو چھوٹا تصور نہ کرنا ممکن ہے اسی میں اللہ کی خوشنودی ہو اور تمہیں اس کی اطلاع نہ ہو۔ (بحارالانوار، جلد ۶۹، صفحہ ۲۷۴)
۲۔ گناہگاروں سے دشمنی اور دوری
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ’’طَلَبْتُ حُبَّ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَوَجَدْتُهُ فی بُغَضِ اهْلِ الْمَعاصی‘‘ اللہ کی محبت کی جستجو کر رہا تھا تو اسے گناہ گاروں کی دشمنی میں پایا۔ (مستدرک الوسایل، جلد ۱۲، صفحہ ۱۷۳)
آج انسان کی مشکل یہی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اس سے اللہ بھی راضی رہے اور دشمنان خدا بھی ناراض نہ ہوں۔ جب کہ دونوں کا ایک جگہ جمع ہو پانا ناممکن ہے۔
۳۔ نفس کی مخالفت۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ خدا میں عرض کی۔ خدایا! مجھے ایسے عمل کی رہنمائی کر دے کہ جس کی انجام دہی سے مجھے تیری رضا حاصل ہو جائے ۔ تو اللہ نے ان پر وحی کی کہ جس عمل پر تمہارے نفس کو کراہت محسوس ہو۔ (اس کی انجام دہی میں میری رضا ہے) (بحارالانوار، جلد ۸۲، صفحہ ۱۳۴)
۴۔ محرمات سے پرہیز
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ’’مَنْ اسْخَطَ بَدَنَهُ ارْضی رَبَّهُ وَ مَنْ لَمْ یسْخِطُ بَدَنَهَ عَصی رَبَّهُ‘‘ جو گناہوں کو ترک کر کے بدن کو سختی میں ڈالے تو اللہ اس سے راضی ہو جائے گا۔ اور جو گناہوں کی لذت میں غرق ہو کر بدن کو کو آرام پہنچائے تو اس سے اللہ ناراض ہو جائے گا۔ (بحارالانوار، جلد ۷۰، صفحہ ۳۱۲)
اسی طرح خدمت خلق، صلہ رحمی، گھر والوں سے محبت وغیرہ اللہ کی رضایت کے اسباب میں شامل ہیں۔
’’وَلاتَجْعَلْ لِلشَّيطَانِ فِيہ عَلَی سَبِيلا‘‘ اور شیطان کے لئے مجھ پر دسترس پانے کا راستہ قرار نہ دے۔
سوال یہ ہے شیطان کب انسان سے دور بھاگتا ہے تو روایات میں مختلف مقامات بیان ہوئے ہیں جس میں سے ایک نماز کی ادائیگی ہے۔ اسی طرح روایت میں ہے کہ شیطان تین لوگوں سے دور رہتا ہے۔ ایک جو خدا کی یاد میں رہتے ہیں، دوسرے جو سحر میں اٹھ کر استغفار کرتے ہیں اور تیسرے وہ لوگ ہیں جو خوف خدا میں سحر کے ہنگام گریہ و زاری کرتے ہیں۔
’’وَاجْعَلِ الْجَنَّةَ لِي مَنْزِلا وَمَقِيلا ‘‘ اور جنت کو میری منزل اور جائے آرام قرار دے۔
عامہ و خاصہ کی کتب میں موجود مشہورترین حدیث ہے کہ ’’اگر مولا علی علیہ السلام کی دشمنی نہ ہوتی تو اللہ جہنم کو خلق نہ کرتا۔‘‘ اسی طرح جنت مولا علی علیہ السلام اور انکے شیعوں اور چاہنے والوں سے مخصوص ہے۔ معتبر روایت میں ہے کہ محبت علیؑ گناہوں کو اسی طرح ختم کرتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو۔ یعنی انسان کے عقیدہ توحید و رسالت کے بعد ولایت ائمہؑ پر عقیدہ ہے تو اللہ اسکو مرنے سے پہلے توفیق توبہ عطا کرے گا، اسکے گناہ کو معاف کرے تا کہ جنت میں بھیج دے گا لیکن اگر عمل ہو لیکن مولا علی ؑ سے دشمنی ہو گی تو اللہ اس کے تمام اعمال اس کے منھ پر مار دے گااور جہنم واصل ہو جائے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .